میں اکثر اپنی بلاھٹ کے متعلق سوچتا ھوں تو اس میں میرے والدین کا بہیت اثرورسوخ نظر آتا ھے- میں صبح صبح چولہا جلانے میں اپنی والدہ کی مدد کیا کرتا تھا کیونکہ آج سے چالیس پچاس سال قبل پاکستان کے اکثر دیہاتوں میں بجلی اور گیس نہیں ھوا کرتے تھے آج بھی کوئی اتنے اچھی صورت حال نہیں لیکن اس وقت سے شائد بہتر ھے لیکن چولہے کی آگ جلانا بہت چیلنج ھوتا تھا، آگ جلاتے جلاتے آنکھیں دھوویں سے پانی پانی ھو جاتی تھی- اس کے علاوہ میری امی بہت اچھی تندور کی روٹی بناتی تھیں تو روٹیاں پکانے سے پہلے میں تندور تایا کرتا تھا اور یوں میتاپنیبوالدہ جو تندور کے سیک سے بچا لیا کرتا تھا-
میرے والد کیونکہ استاد تھے تو انہوں نے صبح جلدی اٹھ کر سکول جانا ھوتا تھا تو میں انکے لئے نلکا گھیڑتا اور وہ اپنا منہ اور پاؤں دھویا کرتے تھے- پھر جب انہوں نے سائیکل پر جانا ھوتا تھا تو انکی پرانی سی سائیکل صاف کرتا اور انکے جوتے بھی پالش کرتا تھا، اس زمانے میں کوئلے والی استریاں ھوتی تھیں اور میں چھوٹا تھا اسئے مجھے کپڑے استری کرنے کی اجازت بھی نہیں تھی اور میں کپڑے استری کرنے کے فن سے ناواقف بھی تھا-
میری والدہ کوکنگ اور برتن دھوتے وقت ھمیشہ گنگنایا کرتی تھیں اور میرا خیال ھے موسیقی کا شوق مجھے اپنی والدہ سے ورثے میں ملا ھے- میرے والد کو ھر ایک کا شکریہ ادا کرنے کی بہت عادت تھی تو وہ اپنے بچوں کا بھی ھمیشہ شکریہ ادا کیا کرتے تھے-
میرے خیال میں ماں باپ کی خدمت نے میرے اندر خدا اور اسکی مخلوق کے لئے محبت پیدا کر دی اور اسلئے میں انجیل کی منادی سے کبھی نہیں تکھتا-
خدا میرے والدین کو ابدی آرام بخشے-
Comments
Post a Comment